یاد رکھتے کس طرح قصے کہانی لوگ تھے
یاد رکھتے کس طرح قصے کہانی لوگ تھے
وہ یہاں کے تھے نہیں وہ آسمانی لوگ تھے
سوکھے پیڑوں کی قطاریں روکتیں کب تک انہیں
اڑ گئے کرتے بھی کیا برگ خزانی لوگ تھے
زندگی آنکھوں پہ رکھ کر ہاتھ پیچھے چھپ گئی
درمیاں رہ کر بھی سب کے آنجہانی لوگ تھے
کل یہیں پر لہلہاتی تھیں ہنسی کی کھیتیاں
کل یہیں پر کیسے کیسے زعفرانی لوگ تھے
ٹوٹ کر بکھرے ہوئے ہیں قربتوں کے سلسلے
چھپ گئے جانے کہاں جو درمیانی لوگ تھے
خشک مٹی بن گئے تو بوندیاں نہلا گئیں
اور ہمیں کیا چاہئے تھا آگ پانی لوگ تھے