میناروں پر جیسے جیسے شام بکھرتی جاتی ہے
میناروں پر جیسے جیسے شام بکھرتی جاتی ہے منظر اور دل دونوں میں ویرانی بھرتی ہے شہر کے بارہ دروازے ہیں جانے کہاں سے آئے وہ شہزادی یہ سوچ کے ہر در روشن کرتی جاتی ہے مسجد کے دالان سے لے کر گھنگھرو کی جھنکار تلک ایک گلی کئی صدیوں سے چپ چاپ گزرتی جاتی ہے راوی تو اب بھی زندہ ہے لیکن ...