فریحہ نقوی کی غزل

    کسی کا دیکھ کے دھیمے سے مسکرا دینا (ردیف .. ے)

    کسی کا دیکھ کے دھیمے سے مسکرا دینا کسی کے واسطے کل کائنات ہوتی ہے کبھی وہ وقت بھی آئے گا تم بھی جانو گے تمہاری دید کسی کی حیات ہوتی ہے تو جب جہاں بھی میسر ہو بس اسی پل میں زمانے بھر کے دکھوں سے نجات ہوتی ہے

    مزید پڑھیے

    اسے بھی چھوڑوں اسے بھی چھوڑوں تمہیں سبھی سے ہی مسئلہ ہے؟

    اسے بھی چھوڑوں اسے بھی چھوڑوں تمہیں سبھی سے ہی مسئلہ ہے؟ مری سمجھ سے تو بالاتر ہے یہ پیار ہے یا معاہدہ ہے ''جو تو نہیں تھی تو اور بھی تھے جو تو نہ ہوگی تو اور ہوں گے'' کسی کے دل کو جلا کے کہتے ہو میری جاں یہ محاورہ ہے ہم آج قوس قزح کے مانند ایک دوجے پہ کھل رہے ہیں مجھے تو پہلے سے لگ ...

    مزید پڑھیے

    اے مری ذات کے سکوں آ جا

    اے مری ذات کے سکوں آ جا تھم نہ جائے کہیں جنوں آ جا رات سے ایک سوچ میں گم ہوں کس بہانے تجھے کہوں آ جا ہاتھ جس موڑ پر چھڑایا تھا میں وہیں پر ہوں سر نگوں آ جا یاد ہے سرخ پھول کا تحفہ؟ ہو چلا وہ بھی نیلگوں آ جا چاند تاروں سے کب تلک آخر تیری باتیں کیا کروں آ جا اپنی وحشت سے خوف آتا ...

    مزید پڑھیے

    ذات کی تیرگی کا نوحہ ہیں

    ذات کی تیرگی کا نوحہ ہیں شعر کیا ہیں دروں کا گریہ ہیں میں سمندر کبھی نہیں تھی مگر میرے پیروں میں سارے دریا ہیں اب ترے بعد یہ مری آنکھیں رنج کا مستقل ٹھکانہ ہیں اے مرے خواب چھیننے والے یہ مرا آخری اثاثہ ہیں جو ترے سامنے بھی خالی رہا ہم تری دید کا وہ کاسہ ہیں کھیل یا توڑ اب تری ...

    مزید پڑھیے

    ہم ایک شہر میں جب سانس لے رہے ہوں گے

    ہم ایک شہر میں جب سانس لے رہے ہوں گے ہمارے بیچ زمانوں کے فاصلے ہوں گے وہ چاہتا تو یہ حالات ٹھیک ہو جاتے بچھڑنے والے سبھی ایسا سوچتے ہوں گے یہ بے بسی سے تری راہ دیکھنے والے گئے دنوں میں ترے خواب دیکھتے ہوں گے کہا بھی تھا کہ زیادہ قریب مت آؤ بتایا تھا کہ تمہیں مجھ سے مسئلے ہوں ...

    مزید پڑھیے

    بیتے خواب کی عادی آنکھیں کون انہیں سمجھائے

    بیتے خواب کی عادی آنکھیں کون انہیں سمجھائے ہر آہٹ پر دل یوں دھڑکے جیسے تم ہو آئے ضد میں آ کر چھوڑ رہی ہے ان بانہوں کے سائے جل جائے گی موم کی گڑیا دنیا دھوپ سرائے شام ہوئی تو گھر کی ہر اک شے پر آ کر جھپٹے آنگن کی دہلیز پہ بیٹھے ویرانی کے سائے ہر اک دھڑکن درد کی گہری ٹیس میں ڈھل ...

    مزید پڑھیے

    اسے بھولنے کا ستم کر رہے ہیں

    اسے بھولنے کا ستم کر رہے ہیں ہم اپنی اذیت کو کم کر رہے ہیں ہماری نگاہوں سے سپنے چرا کر وہ کس کی نگاہوں میں ضم کر رہے ہیں حیات رواں کی ہر اک نا روائی ہم اپنے لہو سے رقم کر رہے ہیں بھلی کیوں لگے ہم کو خوشیوں کی دستک ابھی ہم محبت کا غم کر رہے ہیں کسے دکھ سنائیں سبھی تو یہاں پر شمار ...

    مزید پڑھیے

    ہم تحفے میں گھڑیاں تو دے دیتے ہیں

    ہم تحفے میں گھڑیاں تو دے دیتے ہیں اک دوجے کو وقت نہیں دے پاتے ہیں آنکھیں بلیک اینڈ وائٹ ہیں تو پھر ان میں کیوں رنگ برنگے خواب کہاں سے آتے ہیں خوابوں کی مٹی سے بنے دو کوزوں میں دو دریا ہیں اور اکٹھے بہتے ہیں چھوڑو جاؤ کون کہاں کی شہزادی شہزادی کے ہاتھ میں چھالے ہوتے ہیں درد کو ...

    مزید پڑھیے

    روند پائے نہ دلائل میرے

    روند پائے نہ دلائل میرے میرے دشمن بھی تھے قائل میرے صاف دکھتی تھی جلن آنکھوں میں پھر بھی ہونٹوں پہ فضائل میرے یہ تہی فکر کنوئیں کے مینڈک یہ نہ سمجھیں گے مسائل میرے چھاؤں دیتے تھے مگر راہ نہیں پیڑ تھے رستے میں حائل میرے آنکھ اب خواب نہیں دے سکتی روشنی مانگ لے سائل میرے جب ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3