میناروں پر جیسے جیسے شام بکھرتی جاتی ہے

میناروں پر جیسے جیسے شام بکھرتی جاتی ہے
منظر اور دل دونوں میں ویرانی بھرتی ہے


شہر کے بارہ دروازے ہیں جانے کہاں سے آئے وہ
شہزادی یہ سوچ کے ہر در روشن کرتی جاتی ہے


مسجد کے دالان سے لے کر گھنگھرو کی جھنکار تلک
ایک گلی کئی صدیوں سے چپ چاپ گزرتی جاتی ہے


راوی تو اب بھی زندہ ہے لیکن اس کے سینے میں
دھڑکن دھڑکن بہتی ایک روایت مرتی جاتی ہے


زرد فصیلیں ڈھلتا سورج دیکھ کے ایسا لگتا ہے
قلعے پر اب دھیرے دھیرے رات اترتی جاتی ہے