فریحہ نقوی کے تمام مواد

21 غزل (Ghazal)

    میناروں پر جیسے جیسے شام بکھرتی جاتی ہے

    میناروں پر جیسے جیسے شام بکھرتی جاتی ہے منظر اور دل دونوں میں ویرانی بھرتی ہے شہر کے بارہ دروازے ہیں جانے کہاں سے آئے وہ شہزادی یہ سوچ کے ہر در روشن کرتی جاتی ہے مسجد کے دالان سے لے کر گھنگھرو کی جھنکار تلک ایک گلی کئی صدیوں سے چپ چاپ گزرتی جاتی ہے راوی تو اب بھی زندہ ہے لیکن ...

    مزید پڑھیے

    وہ اگر اب بھی کوئی عہد نبھانا چاہے

    وہ اگر اب بھی کوئی عہد نبھانا چاہے دل کا دروازہ کھلا ہے جو وہ آنا چاہے عین ممکن ہے اسے مجھ سے محبت ہی نہ ہو دل بہر طور اسے اپنا بنانا چاہے دن گزر جاتے ہیں قربت کے نئے رنگوں سے رات پر رات ہے وہ خواب پرانا چاہے اک نظر دیکھ مجھے!! میری عبادت کو دیکھ!! بھول پائے گا اگر مجھ کو بھلانا ...

    مزید پڑھیے

    کھو دینے کا دل بھرنے کا تھک جانے کا خوف

    کھو دینے کا دل بھرنے کا تھک جانے کا خوف ایک ترے ہونے سے چکھا کیسا کیسا خوف تم تھے لیکن دو حصوں میں بٹے ہوئے تھے تم آنکھ کھلی تو بستر کی ہر سلوٹ میں تھا خوف ہم دونوں کے سامنے بہتا وقت آئینہ تھا مجھ کو اس نے خواب دکھائے تجھے دکھایا خوف اس رستے پر مجھ سے پہلے کوئی نہیں آیا ایک ...

    مزید پڑھیے

    ہاتھوں میں رسیاں ہیں

    ہاتھوں میں رسیاں ہیں پیروں میں بیڑیاں ہیں آنکھوں میں ایک جنگل جنگل میں سیپیاں ہیں میں خواب کیا سناؤں ہونٹوں پہ کرچیاں ہیں شہزادیاں تھیں پہلے اب صرف لڑکیاں ہیں اک ایک کر کے بجھتی ہم موم بتیاں ہیں لکھ کر مٹا دی جائیں ہم وہ کہانیاں ہیں ہم پر بھی اک صحیفہ ہم حوا زادیاں ہیں

    مزید پڑھیے

    مرے لفظوں کو خیالوں سے جلا دیتا ہے

    مرے لفظوں کو خیالوں سے جلا دیتا ہے کون ہے وہ جو مجھے مجھ سے ملا دیتا ہے جب بھی گزرے مرے آنگن سے وفا کا موسم تیری چاہت کا نیا پھول کھلا دیتا ہے اس سے خلوت میں ملاقات کا عالم کیا ہو جو نگاہوں سے سر بزم پلا دیتا ہے میں معافی تو اسے دے دوں مگر سچ یہ ہے جھوٹ ہر رشتے کی بنیاد ہلا دیتا ...

    مزید پڑھیے

تمام

9 نظم (Nazm)

    میں شام سے شاید ڈوبی تھی

    ناصرؔ کے سہانے شعروں میں۔۔۔۔ کاغذ کے پرانے ٹکڑوں میں، یہ چند اثاثے نکلے ہیں۔۔۔۔!!! کچھ پھول کی سوکھی پتیاں ہیں، کچھ رنگ اڑی سی تحریریں یہ خط کے خالی لفافے ہیں، اور میری تمہاری تصویریں، یہ دیکھو کلائی کے گجرے۔۔۔۔ یہ ٹوٹے موتی مالا کے۔۔۔۔ لو آج کی ساری رات گئی!!!

    مزید پڑھیے

    ہمارے کمرے میں پتیوں کی مہک نے

    سگریٹ کے رقص کرتے دھوئیں سے مل کر، عجیب ماحول کر دیا ہے اور اس پہ اب یہ گھڑی کی ٹک ٹک نے، دل اداسی سے بھر دیا ہے کسی زمانے میں ہم نے، ناصرؔ، فرازؔ، محسنؔ، جمالؔ، ثروتؔ کے شعر اپنی چہکتی دیوار پر لکھے تھے اب اس میں سیلن کیوں آ گئی ہے۔۔۔۔؟ ہمارا بستر کہ جس میں کوئی شکن نہیں ہے، اسی ...

    مزید پڑھیے

    ویڈیو

    ہاتھوں میں رسیاں ہیں پیروں میں بیڑیاں ہیں آنکھوں میں ایک جنگل جنگل میں سیپیاں ہیں میں خواب کیا سناؤں ہونٹوں پہ کرچیاں ہیں شہزادیاں تھیں پہلے اب صرف لڑکیاں ہیں اک ایک کرکے بجھتی ہم موم بتیاں ہیں لکھ کر مٹا دی جائیں ہم وہ کہانیاں ہیں ہم پر بھی اک صحیفہ ہم حوا زادیاں ہیں

    مزید پڑھیے

    چناب تجھ کو یاد ہے

    کہ تیرے ساحلوں کی نرم ریت پر ہوئی تھیں مہرباں وہ انگلیاں انہی کی ایک پور نے جو رقص عشق میں کیا اک اسم پھر امر ہوا چناب تیری ریت پر وہ اسم اب کہیں نہیں بتا وہ ہاتھ کیا ہوئے وہ نقش سب ہوا ہوئے وہ خواب سب دھواں ہوئے نہیں نہیں یہ جھوٹ ہے یہ خواب ہے عجیب سا ابھی بھی کچھ نہیں گیا میں ...

    مزید پڑھیے

    آئینے سے جھانکتی نظم

    میرے بالوں میں چاندی اتر آئی ہے۔۔۔۔ پیارے بابا! میں کچھ بال توڑوں؟ کہ ہم ان کو بیچیں گے۔۔۔۔ پھر جو روپے ہوں گے، ان سے جہیز اور شادی کی تیاریاں ہو سکیں گی۔۔۔۔ میں یوں آپ کا روز بجھتا ہوا، اور مرجھایا چہرہ نہیں دیکھ پاتی۔۔۔۔ سنیں! میرے بالوں میں چاندی اتر آئی ہے

    مزید پڑھیے

تمام