یادیں

چھوٹے چھوٹے تہواروں کی کیسی خوشیاں تھیں
ہم پھلجڑیاں لے کر صحن میں بھاگے پھرتے تھے


شب برات پہ میں نے بھی مانگی تھی ایک دعا
اس کے ہونٹوں پر بھی کتنے حرف سنہرے تھے


گرمی کی تپتی دوپہریں اور پیپل کا پیڑ
میری دکھتی آنکھوں میں سکھ چین اترتے تھے


اک جیسی بے مقصد سوچیں اک جیسے ہنگام
عمر کے اک حصے میں فرحتؔ ہم بھی لڑکے تھے