فرحت اقبال کی غزل

    چند یادیں کبھی خوشیاں کبھی آنسو بن کر

    چند یادیں کبھی خوشیاں کبھی آنسو بن کر بارہا دل میں چلی آتی ہیں خوشبو بن کر کتنی ہی یادیں ہیں کیا تم کو بتاؤں اے دوست رات میں اب بھی چلی آتی ہیں جگنو بن کر تجربے زیست کے وہ اپنے بتائیں گے کسے اونچے پربت پہ جو جا بیٹھے ہیں سادھو بن کر لوریاں ماں کی مجھے یاد ہیں کچھ کچھ فرحتؔ دل پہ ...

    مزید پڑھیے

    بے ستوں اک آسماں کو دیکھتے رہتے ہیں ہم

    بے ستوں اک آسماں کو دیکھتے رہتے ہیں ہم اک خلائے بے کراں کو دیکھتے رہتے ہیں ہم کیا بشر کا حال ہو جاتا ہے ان کے درمیاں اس زمین و آسماں کو دیکھتے رہتے ہیں ہم رہبروں کی بھیڑ میں کچھ راہزن بھی ہیں شریک اب تو میر کارواں کو دیکھتے رہتے ہیں ہم ہے خطا کس کی سزا ملتی ہے کس کو دیکھیے اب ...

    مزید پڑھیے

    پہنچی ہے کس مقام پہ تشنہ لبوں کی پیاس

    پہنچی ہے کس مقام پہ تشنہ لبوں کی پیاس پلکوں کو ہم نے دیکھا ہے اشکوں کے آس پاس بجھتی نہیں ہے اوس سے شاید گلوں کی پیاس آنسو ہی کچھ بکھیر دوں شبنم کے آس پاس خوش کس طرح سے رہتے ہیں ویراں گھروں میں لوگ اپنا تو ہو گیا ہے بھرے گھر میں جی اداس لگتا ہے اس جہاں میں خوشی ہی نہیں رہی جیسے ...

    مزید پڑھیے

    طور جینے کے بدل کر دیکھ لیں

    طور جینے کے بدل کر دیکھ لیں وقت کے سانچے میں ڈھل کر دیکھ لیں دل سے باہر بھی ہیں کتنی بستیاں دل کی دنیا سے نکل کر دیکھ لیں ایک پہلو زندگی کا اور ہے زاویہ اپنا بدل کر دیکھ لیں وقت کیا ہے وقت کی پہچان کیا آؤ اس کے ساتھ چل کر دیکھ لیں ویسے دل کو کام یہ آتا نہیں وہ سنبھالے تو سنبھل کر ...

    مزید پڑھیے