بے ستوں اک آسماں کو دیکھتے رہتے ہیں ہم
بے ستوں اک آسماں کو دیکھتے رہتے ہیں ہم
اک خلائے بے کراں کو دیکھتے رہتے ہیں ہم
کیا بشر کا حال ہو جاتا ہے ان کے درمیاں
اس زمین و آسماں کو دیکھتے رہتے ہیں ہم
رہبروں کی بھیڑ میں کچھ راہزن بھی ہیں شریک
اب تو میر کارواں کو دیکھتے رہتے ہیں ہم
ہے خطا کس کی سزا ملتی ہے کس کو دیکھیے
اب جلال حکمراں کو دیکھتے رہتے ہیں ہم
ٹھیک کرنے کی تو کوشش کی مگر انجام کار
اپنے اس بگڑے جہاں کو دیکھتے رہتے ہیں ہم
ہر گھڑی پیش نظر رہتی ہے فرحتؔ مصلحت
ہر گھڑی سود و زیاں کو دیکھتے رہتے ہیں ہم