پہنچی ہے کس مقام پہ تشنہ لبوں کی پیاس

پہنچی ہے کس مقام پہ تشنہ لبوں کی پیاس
پلکوں کو ہم نے دیکھا ہے اشکوں کے آس پاس


بجھتی نہیں ہے اوس سے شاید گلوں کی پیاس
آنسو ہی کچھ بکھیر دوں شبنم کے آس پاس


خوش کس طرح سے رہتے ہیں ویراں گھروں میں لوگ
اپنا تو ہو گیا ہے بھرے گھر میں جی اداس


لگتا ہے اس جہاں میں خوشی ہی نہیں رہی
جیسے اداس آپ ہیں ویسے ہیں ہم اداس


کس طرح نبھ سکے گی زمانے سے دوستی
میں بھی ہوں غم شناس مرا دل بھی غم شناس


فرحتؔ مجھے ازل سے ملا تھا یہی مزاج
اور کچھ مجھے زمانے نے رکھا ہے بد حواس