Fareed Javed

فرید جاوید

فرید جاوید کی غزل

    میکدے کے سوا ملی ہے کہاں

    میکدے کے سوا ملی ہے کہاں اور دنیا میں روشنی ہے کہاں آرزوؤں کا اک ہجوم سہی فرصت شوق کھو گئی ہے کہاں جتنے وارفتہ‌ٔ سفر ہیں ہم اتنی راہوں میں دل کشی ہے کہاں ساتھ آئے کوئی کہ رہ جائے زندگی مڑ کے دیکھتی ہے کہاں خوش ادا سب ہیں آشنا جاویدؔ اپنی آوارگی چھپی ہے کہاں

    مزید پڑھیے

    کس سے وفا کی ہے امید کون وفا شعار ہے

    کس سے وفا کی ہے امید کون وفا شعار ہے اے مرے بے قرار دل کس لیے بے قرار ہے سن تو رہے ہیں دیر سے شور بہت بہار کا جانے کہاں کھلے ہیں پھول جانے کہاں بہار ہے کیوں نہ ترے خیال میں زمزمہ خواں گزر چلیں یوں بھی ہماری راہ میں گردش روزگار ہے رات سے ہم نہیں اداس رات اداس ہی سہی رات تو صبح کے ...

    مزید پڑھیے

    نہ غرور ہے خرد کو نہ جنوں میں بانکپن ہے

    نہ غرور ہے خرد کو نہ جنوں میں بانکپن ہے یہ مزاج زندگی تو بڑا حوصلہ شکن ہے جہاں مل سکیں نہ مل کے جہاں فاصلے ہوں دل کے اسے انجمن نہ سمجھو وہ فریب انجمن ہے یہ ہوا چلی ہے کیسی کہ دلوں کی دھڑکنوں میں نہ حدیث لالہ و گل نہ حکایت چمن ہے نہیں مصلحت کہ رہبر کوئی بات سچ بتا دے ذرا کارواں سے ...

    مزید پڑھیے

    جب بھی شمع طرب جلائی ہے

    جب بھی شمع طرب جلائی ہے آنچ محرومیوں کی آئی ہے راستے اتنے بے کراں تو نہ تھے جستجو کتنی دور لائی ہے زحمت جستجو سے کیا ہوگا بوئے گل کس کے ہاتھ آئی ہے کتنی رنگینیوں میں تیری یاد کس قدر سادگی سے آئی ہے کہہ کے جان غزل تجھے ہم نے اپنی کم‌ مائیگی چھپائی ہے جب بھی جاویدؔ چھیڑ دی ہے ...

    مزید پڑھیے

    کیا ہو گیا کیسی رت پلٹی مرا چین گیا مری نیند گئی

    کیا ہو گیا کیسی رت پلٹی مرا چین گیا مری نیند گئی کھلتی ہی نہیں اب دل کی کلی مرا چین گیا مری نیند گئی میں لاکھ رہوں یوں ہی خاک بسر شاداب رہیں ترے شام و سحر نہیں اس کا مجھے شکوہ بھی کوئی مرا چین گیا مری نیند گئی میں کب سے ہوں آس لگائے ہوئے اک شمع امید جلائے ہوئے کوئی لمحہ سکوں کا ...

    مزید پڑھیے

    تلخ گزرے کہ شادماں گزرے

    تلخ گزرے کہ شادماں گزرے زندگی ہو تو کیوں گراں گزرے تھا جہاں مدتوں سے سناٹا ہم وہاں سے بھی نغمہ خواں گزرے مرحلے سخت تھے مگر ہم لوگ صورت موجۂ رواں گزرے میرے ہی دل کی دھڑکنیں ہوں گی تم مرے پاس سے کہاں گزرے کیوں نہ ڈھل جائے میرے نغموں میں کیوں ترا حسن رائیگاں گزرے چند لمحے خیال ...

    مزید پڑھیے

    ساز دے کے تاروں کو چھیڑ تو دیا تم نے (ردیف .. ی)

    ساز دے کے تاروں کو چھیڑ تو دیا تم نے ساز دل کے تاروں کی بات بھی سنی ہوتی ہم جو شعلۂ جاں کی لو نہ تیز کر دیتے آج غم کی راہوں میں کتنی تیرگی ہوتی ان سے چھیڑ دیتے ہم رنگ و نور کی باتیں داستان شوق اپنی خود ہی چھڑ گئی ہوتی شکوۂ کرم کیوں ہے وہ اگر کرم کرتے اور بھی محبت کی پیاس بڑھ گئی ...

    مزید پڑھیے

    کس اجالے کا نشاں ہیں ہم لوگ

    کس اجالے کا نشاں ہیں ہم لوگ کن اندھیروں میں رواں ہیں ہم لوگ نور خورشید کو الزام نہ دو صبح کا خواب گراں ہیں ہم لوگ جیسے بھٹکا ہوا راہی ہو کوئی یوں ہی ہر سو نگراں ہیں ہم لوگ کبھی آوارگیٔ نکہت گل کبھی زنجیر گراں ہیں ہم لوگ دور تک دشت جنوں ہے جاویدؔ آبلہ پا گزراں ہیں ہم لوگ

    مزید پڑھیے

    کیا بدل دو گے تم اک نظر سے

    کیا بدل دو گے تم اک نظر سے بے قراری تو ہے عمر بھر سے دوستو شہر جاں جل رہا ہے اب کہاں جاؤ گے اور کدھر سے زخم ہیں دل پہ کیا کیا نہ دیکھو پھول چن لو لب نغمہ گر سے جاگ کر رات ہم نے گزاری پوچھ لو کاروان سحر سے ظلمت شب ہے جاویدؔ اور ہم چاند نکلے نہ جانے کدھر سے

    مزید پڑھیے

    ہمارے سامنے بیگانہ وار آؤ نہیں

    ہمارے سامنے بیگانہ وار آؤ نہیں نیاز اہل محبت کو آزماؤ نہیں ہمیں بھی اپنی تباہی پہ رنج ہوتا ہے ہمارے حال پریشاں پہ مسکراؤ نہیں جو تار ٹوٹ گئے ہیں وہ جڑ نہیں سکتے کرم کی آس نہ دو بات کو بڑھاؤ نہیں دیے خلوص و محبت کے بجھتے جاتے ہیں گراں نہ ہو تو ہمیں اس قدر ستاؤ نہیں دل و نگاہ کو ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2