نہ غرور ہے خرد کو نہ جنوں میں بانکپن ہے
نہ غرور ہے خرد کو نہ جنوں میں بانکپن ہے
یہ مزاج زندگی تو بڑا حوصلہ شکن ہے
جہاں مل سکیں نہ مل کے جہاں فاصلے ہوں دل کے
اسے انجمن نہ سمجھو وہ فریب انجمن ہے
یہ ہوا چلی ہے کیسی کہ دلوں کی دھڑکنوں میں
نہ حدیث لالہ و گل نہ حکایت چمن ہے
نہیں مصلحت کہ رہبر کوئی بات سچ بتا دے
ذرا کارواں سے پوچھو جو شکست جو تھکن ہے
کئی انقلاب آئے کئی دیپ جھلملائے
جو بجھی نہیں ہے اب تک تری یاد کی کرن ہے
میں غموں کی تیرگی میں نہیں اس قدر بھی تنہا
کوئی مجھ سے دور رہ کر مرے دل میں ضو فگن ہے
نہیں سب کے ساتھ یکساں سفر حیات پیارے
کہیں رنگ و بو کے سائے کہیں دشت پر محن ہے