میکدے کے سوا ملی ہے کہاں

میکدے کے سوا ملی ہے کہاں
اور دنیا میں روشنی ہے کہاں


آرزوؤں کا اک ہجوم سہی
فرصت شوق کھو گئی ہے کہاں


جتنے وارفتہ‌ٔ سفر ہیں ہم
اتنی راہوں میں دل کشی ہے کہاں


ساتھ آئے کوئی کہ رہ جائے
زندگی مڑ کے دیکھتی ہے کہاں


خوش ادا سب ہیں آشنا جاویدؔ
اپنی آوارگی چھپی ہے کہاں