Fareed Javed

فرید جاوید

فرید جاوید کے تمام مواد

20 غزل (Ghazal)

    میکدے کے سوا ملی ہے کہاں

    میکدے کے سوا ملی ہے کہاں اور دنیا میں روشنی ہے کہاں آرزوؤں کا اک ہجوم سہی فرصت شوق کھو گئی ہے کہاں جتنے وارفتہ‌ٔ سفر ہیں ہم اتنی راہوں میں دل کشی ہے کہاں ساتھ آئے کوئی کہ رہ جائے زندگی مڑ کے دیکھتی ہے کہاں خوش ادا سب ہیں آشنا جاویدؔ اپنی آوارگی چھپی ہے کہاں

    مزید پڑھیے

    کس سے وفا کی ہے امید کون وفا شعار ہے

    کس سے وفا کی ہے امید کون وفا شعار ہے اے مرے بے قرار دل کس لیے بے قرار ہے سن تو رہے ہیں دیر سے شور بہت بہار کا جانے کہاں کھلے ہیں پھول جانے کہاں بہار ہے کیوں نہ ترے خیال میں زمزمہ خواں گزر چلیں یوں بھی ہماری راہ میں گردش روزگار ہے رات سے ہم نہیں اداس رات اداس ہی سہی رات تو صبح کے ...

    مزید پڑھیے

    نہ غرور ہے خرد کو نہ جنوں میں بانکپن ہے

    نہ غرور ہے خرد کو نہ جنوں میں بانکپن ہے یہ مزاج زندگی تو بڑا حوصلہ شکن ہے جہاں مل سکیں نہ مل کے جہاں فاصلے ہوں دل کے اسے انجمن نہ سمجھو وہ فریب انجمن ہے یہ ہوا چلی ہے کیسی کہ دلوں کی دھڑکنوں میں نہ حدیث لالہ و گل نہ حکایت چمن ہے نہیں مصلحت کہ رہبر کوئی بات سچ بتا دے ذرا کارواں سے ...

    مزید پڑھیے

    جب بھی شمع طرب جلائی ہے

    جب بھی شمع طرب جلائی ہے آنچ محرومیوں کی آئی ہے راستے اتنے بے کراں تو نہ تھے جستجو کتنی دور لائی ہے زحمت جستجو سے کیا ہوگا بوئے گل کس کے ہاتھ آئی ہے کتنی رنگینیوں میں تیری یاد کس قدر سادگی سے آئی ہے کہہ کے جان غزل تجھے ہم نے اپنی کم‌ مائیگی چھپائی ہے جب بھی جاویدؔ چھیڑ دی ہے ...

    مزید پڑھیے

    کیا ہو گیا کیسی رت پلٹی مرا چین گیا مری نیند گئی

    کیا ہو گیا کیسی رت پلٹی مرا چین گیا مری نیند گئی کھلتی ہی نہیں اب دل کی کلی مرا چین گیا مری نیند گئی میں لاکھ رہوں یوں ہی خاک بسر شاداب رہیں ترے شام و سحر نہیں اس کا مجھے شکوہ بھی کوئی مرا چین گیا مری نیند گئی میں کب سے ہوں آس لگائے ہوئے اک شمع امید جلائے ہوئے کوئی لمحہ سکوں کا ...

    مزید پڑھیے

تمام