ساز دے کے تاروں کو چھیڑ تو دیا تم نے (ردیف .. ی)

ساز دے کے تاروں کو چھیڑ تو دیا تم نے
ساز دل کے تاروں کی بات بھی سنی ہوتی


ہم جو شعلۂ جاں کی لو نہ تیز کر دیتے
آج غم کی راہوں میں کتنی تیرگی ہوتی


ان سے چھیڑ دیتے ہم رنگ و نور کی باتیں
داستان شوق اپنی خود ہی چھڑ گئی ہوتی


شکوۂ کرم کیوں ہے وہ اگر کرم کرتے
اور بھی محبت کی پیاس بڑھ گئی ہوتی


اہل دل وہاں سے بھی نغمہ زن گزر آئے
لے جہاں محبت کی ٹوٹ ہی گئی ہوتی