فرح شاہد کی نظم

    جہیز

    جہیز اک دور میں تحفہ تھا لیکن اب یہ لعنت ہے کہ جو ناسور بنتا جا رہا ہے زمانے میں اسی لعنت کا اب دستور بنتا جا رہا ہے بنت حوا کو جو سیم و زر کے دو پلڑوں میں تولا جا رہا ہے کس لیے آخر وہ بابل کیا کرے جس کی جواں بیٹی کے بالوں میں جواں سالی میں ہی چاندی اترتی جا رہی ہے اور بوڑھی ماں کی ...

    مزید پڑھیے

    نثری نظم

    دل تمہیں یاد کرتا ہے آ جاؤ کہ ان راستوں پر ابھی تک تیرے قدموں کے نشاں ہیں اس راستے کی دھول پاگلوں کی طرح تیری جدائی کا بین کرتی ہے آ جاؤ دل تمہیں یاد کرتا ہے وہ سایہ دار شجر وہ پھولوں کی ڈالیاں جن کے نیچے ہم نے کچھ لمحے ساتھ گزارے تھے آج بھی تیری یاد میں نم ہیں اک انمٹ سا سکوت طاری ...

    مزید پڑھیے

    تماشائی بھی ظالم ہیں

    وہ ظالم جو کسی کا ظلم سہتا ہے کہ وہ ظالم جو اس پر ظلم کرتا ہے کسی مظلوم پر لاٹھی چلاتا ہے وہ جو فرعون بن کر خود کو اس مظلوم کا آقا بتاتا ہے خدا ہونے کا دعویٰ ہی نہیں کرتا خدائی کی حدوں کو چھو کے آتا ہے کسی بے پیرہن کو سڑکوں پہ لاتا ہے نمائش کر کے لوگوں کو تماشا بھی دکھاتا ہے پھر اس ...

    مزید پڑھیے