فرح شاہد کی غزل

    نہیں ہے خوش اضطراب میں ہے

    نہیں ہے خوش اضطراب میں ہے مرا یہ دل بھی سراب میں ہے میں کیسی راہوں میں کھو گئی ہوں سبھی قصور انتخاب میں ہے دکھوں بھری رات کٹ گئی ہے ستارہ سحری سحاب میں ہے وہ یوں تو لگتا ہے سب کے جیسا مگر جدا کچھ جناب میں ہے میں چاہے اس میں نہیں ہوں شامل مگر وہ دل کے نصاب میں ہے میں اس کی ...

    مزید پڑھیے

    پچھلے برس تم ساتھ تھے میرے اور دسمبر تھا

    پچھلے برس تم ساتھ تھے میرے اور دسمبر تھا مہکے ہوئے دن رات تھے میرے اور دسمبر تھا چاندنی رات تھی سرد ہوا سے کھڑکی بجتی تھی ان ہاتھوں میں ہاتھ تھے میرے اور دسمبر تھا بارش کی بوندوں سے دل پہ دستک ہوتی تھی سب موسم برسات تھے میرے اور دسمبر تھا بھیگی زلفیں بھیگا آنچل نیند تھی ...

    مزید پڑھیے

    چلے ہیں ساتھ ہم انجان ہو کر

    چلے ہیں ساتھ ہم انجان ہو کر رہے اپنے ہی گھر مہمان ہو کر ملی تھی راستے میں زندگی بھی مجھے تکتی رہی حیران ہو کر مجھے سمجھا نہیں شاید کسی نے بہت مشکل میں ہوں آسان ہو کر جہاں ہے وہ وہاں پر ہم نہیں ہیں پڑے ہیں گھر میں ہم سامان ہو کر کوئی دھڑکا نہیں لٹنے کا مجھ کو میں خوش ہوں بے سر و ...

    مزید پڑھیے

    چاہے جتنا ساتھ نبھا لو پھر بھی بچھڑنا پڑتا ہے

    چاہے جتنا ساتھ نبھا لو پھر بھی بچھڑنا پڑتا ہے زہر جدائی رو کر یا پھر ہنس کر پینا پڑتا ہے دشمن پر یہ جان نچھاور کرنی بھی پڑ سکتی ہے بعض اوقات تو اپنی جاں کا دشمن ہونا پڑتا ہے جانے والے کب رکتے ہیں رک بھی جائیں تو کب تک جو جو دنیا میں آتا ہے اس کو جانا پڑتا ہے دو دھاری تلوار ہے ...

    مزید پڑھیے

    محبتوں میں مجھے تو اداس رہنے دے

    محبتوں میں مجھے تو اداس رہنے دے جو کچھ نہیں ہے تو یادوں کے پاس رہنے دے وہ جس جگہ بھی ہے میرا ہے بس وہ میرا ہے یہ میرے دل میں خدایا قیاس رہنے دے میں تیرے در کی ہوں باندی سنبھال کر رکھنا کہ در سے دور نہ کرنا تو پاس رہنے دے میں اس کی پیاس کو سمجھی ہوں اس کی آنکھوں سے وہ کاش ایسے ہی ...

    مزید پڑھیے