جہیز

جہیز اک دور میں تحفہ تھا
لیکن اب یہ لعنت ہے
کہ جو ناسور بنتا جا رہا ہے
زمانے میں اسی لعنت کا اب
دستور بنتا جا رہا ہے


بنت حوا کو جو سیم و زر کے دو پلڑوں میں تولا جا رہا ہے
کس لیے آخر


وہ بابل کیا کرے جس کی جواں بیٹی کے بالوں میں
جواں سالی میں ہی چاندی اترتی جا رہی ہے
اور بوڑھی ماں کی آنکھوں میں یہ جو موتی چمکتے ہیں
تو کیا ان کی کوئی قیمت نہیں دنیا کی نظروں میں


انہی رسموں کی جکڑن میں
سیہ چادر کی بکل مار کر نادار کی خاموش بیٹی
گھر میں بیٹھی بے بسی کی بولتی تصویر بنتی جا رہی ہے
یہی بہتر ہے
پتھر کے زمانے میں چلے جائیں
انہی رسموں کو اپنا لیں
کہ بیٹی جوں ہی پیدا ہو اسے درگور کر آئیں