پت جھڑ
پت جھڑ آیا پت جھڑ آیا پیڑوں سے پتے ٹوٹیں گے اور بکھریں گے اک اک کر کے شاہراہوں پر پگڈنڈیوں پر ظالم راہی بے حس راہی پتوں کو پاؤں کے نیچے روندیں گے اور پتے پاؤں کے نیچے چیخیں گے چلائیں گے پیہم پستے جائیں گے
پت جھڑ آیا پت جھڑ آیا پیڑوں سے پتے ٹوٹیں گے اور بکھریں گے اک اک کر کے شاہراہوں پر پگڈنڈیوں پر ظالم راہی بے حس راہی پتوں کو پاؤں کے نیچے روندیں گے اور پتے پاؤں کے نیچے چیخیں گے چلائیں گے پیہم پستے جائیں گے
میرے گاؤں میں میرے گھر کے قریب جھیل ہے ایک خوبصورت سی اس کا شفاف نیلگوں پانی کتنا خاموش اور ساکن ہے بیٹھ کر میں کبھی کنارے پر اس کے پانی میں پھینک کر پتھر اس میں ہلچل مچاتا رہتا ہوں اور اس وقت اس کی وہ ہلچل دل کو کتنا سکون دیتی ہے لیکن افسوس تھوڑی دیر کے بعد ختم ہو جاتا ہے وہ مد و ...
وہ جا رہی ہیں سروں پہ پتھر اٹھائے مزدور عورتیں کچھ یہ کھردرے ہاتھ میلے پاؤں جمی ہیں ہونٹوں پہ پپڑیاں سی اور پسینے میں ہیں شرابور سلگتی دوپہر میں وہ مل کر ایک دیوار چن رہی ہیں حصار سنگیں بنے گا کوئی یہ دیکھ کر حال ان کا مجھ کو خیال رہ رہ کے آ رہا ہے کہاں ہیں وہ مرمریں سی باہیں وہ ...
اے ہم سفرو کیوں نہ یہیں شہر بسا لیں اپنے ہی اصول اپنی ہی اقدار بنا لیں وہ لوگ جنہوں نے مرے ہونٹوں کو سیا ہے سوزن سے مری سوچ کا کانٹا بھی نکالیں اس بزم سے اٹھے گا نہ شعلہ کوئی ہرگز یارو چلو قندیل سے قندیل جلا لیں ہر شہر میں ہیں فصل جنوں آنے کے چرچے شوریدہ سرو آؤ گریبان سلا ...
میں دیکھ رہا ہوں پتے کے ہاتھوں پر جال لکیروں کا میں دیکھ رہا ہوں پتے کی آنکھوں میں شبنم کے آنسو میں دیکھ رہا ہوں پتے کی رگ رگ میں تڑپتا سبز لہو میں دیکھ رہا ہوں پتے کے چہرے پہ ندامت کے قطرے معلوم نہیں لیکن مجھ کو ان روپوں میں سے کون سا ہے پتے کا اپنا اصلی روپ
تنگ و تاریک سی کوٹھری میں موٹی موٹی سلاخوں کے پیچھے غلیظ سے فرش پر پڑا ہے وہ ایک قیدی پریشاں بال ہیں اور زرد چہرہ ہو جیسے ہڈیوں کا ایک ڈھانچہ پڑی ہیں بیڑیاں پاؤں میں اس کے ہے جرم اس کا اپنا فقط اس قدر کہ رہ رہ کے وہ سوچتا ہے یہی وہ زنداں میں کس جرم پر بند ہے سوچے وہ کیوں نہ آخر اس کی ...
گزرے ہیں بیس برس اک دن اک زور کی آندھی آئی تھی جس سے پیڑوں سے جدا ہو کر لاکھوں ہی پتے ٹوٹ گرے شاہراہوں پر پگڈنڈیوں پر کھیتوں میں اور فٹ پاتھوں پر کچھ بہہ گئے گندے نالوں میں بھنگی کی جھاڑو کے صدقے لیکن جو بچ گئے ان کو ہوا ہر وقت اڑائے پھرتی ہے پچھم کو کبھی پورب کو کبھی وہ بکھرے پڑے ...
میں اپنی صورت کو آئینے میں ہوں دیکھ کر آج سخت حیراں وہ خوبصورت ہرن سی آنکھیں کہاں گئیں کیا ہوا ہے ان کو وہاں تو اب دو گڑھے ہیں باقی مہیب سنسان اور ویراں گلاب سے سرخ ہونٹ میرے خجل تھے یاقوت و لعل جن سے جما ہوا ان پہ دیکھتی ہوں بہت سے لوگوں کا خون ناحق یہ میرا پیلا سا زرد چہرہ نہیں ہے ...