آندھی
گزرے ہیں بیس برس اک دن
اک زور کی آندھی آئی تھی
جس سے پیڑوں سے جدا ہو کر
لاکھوں ہی پتے ٹوٹ گرے
شاہراہوں پر پگڈنڈیوں پر
کھیتوں میں اور فٹ پاتھوں پر
کچھ بہہ گئے گندے نالوں میں
بھنگی کی جھاڑو کے صدقے
لیکن جو بچ گئے ان کو ہوا
ہر وقت اڑائے پھرتی ہے
پچھم کو کبھی پورب کو کبھی
وہ بکھرے پڑے ہیں اب ہر سو
اور ہر دم پستے رہتے ہیں
بھاری بھرکم بوٹوں کے تلے