جرم
تنگ و تاریک سی کوٹھری میں
موٹی موٹی سلاخوں کے پیچھے
غلیظ سے فرش پر پڑا ہے
وہ ایک قیدی
پریشاں بال ہیں اور زرد چہرہ
ہو جیسے ہڈیوں کا ایک ڈھانچہ
پڑی ہیں بیڑیاں پاؤں میں اس کے
ہے جرم اس کا اپنا فقط اس قدر
کہ رہ رہ کے وہ سوچتا ہے یہی
وہ زنداں میں کس جرم پر بند ہے
سوچے وہ کیوں نہ آخر
اس کی رگوں میں بھی تو
دوسرے آزاد لوگوں کی طرح
دوڑتا ہے زندگی کا گرم خون