اعجاز گل کی غزل

    جو قصہ گو نے سنایا وہی سنا گیا ہے

    جو قصہ گو نے سنایا وہی سنا گیا ہے اگر تھا اس سے سوا تو نہیں کہا گیا ہے مسافرت کا ہنر ہے نہ واپسی کی خبر سو چل رہا ہوں جدھر بھی یہ راستا گیا ہے اماں کو نیل میسر نہ میں کوئی موسیٰ مجھے سپرد فراعین کر دیا گیا ہے سبب نہیں تھا زمیں پر اتارنے کا مجھے سبب بغیر ہی واپس اٹھا لیا گیا ہے یہ ...

    مزید پڑھیے

    یہ گھومتا ہوا آئینہ اپنا ٹھہرا کے

    یہ گھومتا ہوا آئینہ اپنا ٹھہرا کے ذرا دکھا مرا رفتہ تو چرخ پلٹا کے ہے کائنات معمہ جدا طریقے کا فقط سلجھتا ہے آپس میں گرہیں الجھا کے نتیجہ ایک سا نکلا دماغ اور دل کا کہ دونوں ہار گئے امتحاں میں دنیا کے مسافروں سے رہا ہے وہ راستا آباد پلٹ کے آئے نہیں جس سے پیش رو جا کے یہ ہجر زاد ...

    مزید پڑھیے

    عکس ابھرا نہ تھا آئینۂ دل داری کا

    عکس ابھرا نہ تھا آئینۂ دل داری کا ہجر نے کھینچ دیا دائرہ زنگاری کا ناز کرتا تھا طوالت پہ کہ وقت رخصت بھید سائے پہ کھلا شام کی عیاری کا جس قدر خرچ کیے سانس ہوئی ارزانی نرخ گرتا گیا رسم و رہ بازاری کا رات نے خواب سے وابستہ رفاقت کے عوض راستہ بند رکھا دن کی نموداری کا ایسا ویران ...

    مزید پڑھیے

    اسی جنت جہنم میں مروں گا

    اسی جنت جہنم میں مروں گا گئے موسم کو آوازیں نہ دوں گا نئے جسموں سے مقتل جاگتے ہیں نئے لوگوں کے رستے پر چلوں گا مری آنکھیں سلامت ہیں تو پھر میں پرائے خواب لے کر کیا کروں گا لہو کی سرخیاں میرے علم ہیں خزاں کے زرد لشکر سے لڑوں گا کسی خطے میں قتل روشنی ہو میں اپنے شہر پر نوحہ کہوں ...

    مزید پڑھیے

    در کھول کے دیکھوں ذرا ادراک سے باہر

    در کھول کے دیکھوں ذرا ادراک سے باہر یہ شور سا کیسا ہے مری خاک سے باہر روداد گزشتہ تو سنی کوزہ گری کی فردا کا بھی کر ذکر جو ہے چاک سے باہر خوش آیا عجب عشق کو یہ جامۂ زیبا نکلا نہیں پھر ہجر کی پوشاک سے باہر چاہا تھا مفر دل نے مگر زلف گرہ گیر پیچاک بناتی رہی پیچاک سے باہر آتا نہیں ...

    مزید پڑھیے

    صورت سحر جاؤں اور در بدر جاؤں

    صورت سحر جاؤں اور در بدر جاؤں اب تو فیصلہ ٹھہرا رات سے گزر جاؤں واہموں کے زنداں کا ذہن ذہن قیدی ہے بول فکر تابندہ میں کدھر کدھر جاؤں میری نارسائی سے قافلہ نہ رک جائے میں کہ پا شکستہ ہوں راستے میں مر جاؤں عشق کی صداقت پر جبکہ میرا ایماں ہے کیسے خودکشی کر لوں کیوں بکھر بکھر ...

    مزید پڑھیے

    چل رہا ہوں پیش و پس منظر سے اکتایا ہوا

    چل رہا ہوں پیش و پس منظر سے اکتایا ہوا ایک سے دن رات کے چکر سے اکتایا ہوا بے دلی ہشیار پہنچی مجھ سے پہلے تھی وہاں میں گیا جس انجمن میں گھر سے اکتایا ہوا ہو نہیں پایا ہے سمجھوتہ کبھی دونوں کے بیچ جھوٹ اندر سے ہے سچ باہر سے اکتایا ہوا اب مزین ہے تلفظ سے عوام الناس کے شعر صرف و نحو ...

    مزید پڑھیے

    ذرا بتلا زماں کیا ہے مکاں کے اس طرف کیا ہے

    ذرا بتلا زماں کیا ہے مکاں کے اس طرف کیا ہے اگر یہ سب گماں ہے تو گماں کے اس طرف کیا ہے اگر پتھر سے بکھرے ہیں تو آخر یہ چمک کیسی جو مخزن نور کا ہے کہکشاں کے اس طرف کیا ہے یہ کیا رستہ ہے آدم گامزن ہے کس مسافت میں نہیں منزل تو پھر اس کارواں کے اس طرف کیا ہے عجب پاتال ہے دروازہ و دیوار ...

    مزید پڑھیے

    پھیلا عجب غبار ہے آئینہ گاہ میں

    پھیلا عجب غبار ہے آئینہ گاہ میں مشکل ہے خود کو ڈھونڈھنا عکس تباہ میں جل بجھ چکا ہے خواہش ناکام سے وجود پرچھائیں پھر رہی ہے مکان سیاہ میں میں وہ اجل نصیب کہ قاتل ہوں اپنا آپ ہوتا ہوں روز قتل کسی قتل گاہ میں رکھا گیا ہوں عزت و توقیر کا اسیر باندھا گیا ہے سر کو غرور کلاہ ...

    مزید پڑھیے

    گلی سے اپنی اٹھاتا ہے وہ بہانے سے

    گلی سے اپنی اٹھاتا ہے وہ بہانے سے میں بے خبر رہوں دنیا کے آنے جانے سے کبھی کبھی تو غنیمت ہے یاد رفتہ کی بٹھا نہ روز لگا کے اسے سرہانے سے عجیب شخص تھا میں بھی بھلا نہیں پایا کیا نہ اس نے بھی انکار یاد آنے سے اٹھا رکھی ہے کسی نے کمان سورج کی گرا رہا ہے مرے رات دن نشانے سے کوئی سبب ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3