اعجاز گل کی نظم

    نشان زندگی

    کس نے کھینچی ہیں لکیریں مرے دروازے پر کون ہے جو کہ دبے پاؤں چلا آیا ہے میرے بے رنگ ہیولے کا تعاقب کرتا میں تو محتاط تھا ایسا کہیں آتے جاتے اپنے سائے کو بھی پاتال میں چھوڑ آتا تھا اپنا سامان اٹھاتا تو شب نصف پہر دست ہشیار مٹاتا مرے قدموں کا سراغ جسم ہر سانس کی آواز مقفل رکھتا خاک ...

    مزید پڑھیے

    دشمنوں کے درمیان صلح

    برگ آوارہ صدا آئے ہیں کوئی آوازۂ پا لائے ہیں تیرے پیغام رساں ہیں شاید اور پیمان وفا لائے ہیں گفتگو نرم ہے لہجہ دھیما اب کے انداز جدا لائے ہیں اک ندامت بھی ہے پچھتاوا بھی خفت جرم و جفا لائے ہیں آنکھ میں اشک پشیمانی کے ہونٹ پر حرف دعا لائے ہیں سارے سامان رفوگری کے جیب و دامن میں ...

    مزید پڑھیے

    ذخیرہ گھر مقفل ہیں

    گزرتے وقت کے ویراں جزیروں کی سزا پیشانیوں پر ثبت ہے آزردگی کے کیل جسموں میں گڑے ہیں بد نصیبی گردنوں کا طوق ہے اور محنتوں کے ہات خالی ہیں ہوا کے ساتھ گندم کی مہک شہروں میں اڑتی ہے ذخیرہ گھر مقفل ہیں مشقت کا بدل کڑوے کسیلے موسموں کا ذائقہ ہے ہم پرانی جھولیاں پھیلائے خواہش کے ...

    مزید پڑھیے