اعجاز گل کی غزل

    پیشتر جنبش لب بات سے پہلے کیا تھا

    پیشتر جنبش لب بات سے پہلے کیا تھا ذہن میں صفر کی اوقات سے پہلے کیا تھا وصلت و ہجرت عشاق میں کیا تھا اول نفی تھی بعد تو اثبات سے پہلے کیا تھا کوئی گردش تھی کہ ساکت تھے زمین و خورشید گنبد وقت میں دن رات سے پہلے کیا تھا میں اگر پہلا تماشا تھا تماشا گہہ میں مشغلہ اس کا مری ذات سے ...

    مزید پڑھیے

    نہیں شوق خریداری میں دوڑے جا رہا ہے

    نہیں شوق خریداری میں دوڑے جا رہا ہے یہ گاہک سیر بازاری میں دوڑے جا رہا ہے میسر کچھ نہیں ہے کھیل میں لا حاصلی کے یونہی بیکار بیکاری میں دوڑے جا رہا ہے اٹھائے پھر رہا ہے کوتوال عمر چابک بدن مجبور لاچاری میں دوڑے جا رہا ہے کھڑی ہے منفعت حیران باہر دائرے سے زیاں اپنی زیاں کاری میں ...

    مزید پڑھیے

    خاشاک سے خزاں میں رہا نام باغ کا

    خاشاک سے خزاں میں رہا نام باغ کا ورنہ تو ہر درخت پہ قبضہ ہے زاغ کا حیرت ہے سب تلاش پہ اس کی رہے مصر پایا گیا سراغ نہ جس بے سراغ کا ہے ارتکاز ذات میں وقفہ ذرا سی دیر ٹوٹا نہیں ہے رابطہ لو سے چراغ کا کب کس پہ مہربان ہو اور کب الٹ پڑے کس کو یہاں پتا ہے کسی کے دماغ کا ہوتا ہے پھر وہ ...

    مزید پڑھیے

    کسے خیال تھا ایسی بھی ساعتیں ہوں گی

    کسے خیال تھا ایسی بھی ساعتیں ہوں گی کہ میرے نام سے بھی تجھ کو وحشتیں ہوں گی سزائے مرگ کی صورت وصال گزرا تھا بچھڑ گئے ہیں تو کیا کیا قیامتیں ہوں گی جدائیوں میں زمانے نے کیا سلوک کیا کبھی دوبارہ ملے تو حکایتیں ہوں گی خوشا کہ اپنی وفا فاصلوں کی نذر ہوئی ہمارے بعد زمیں پر رفاقتیں ...

    مزید پڑھیے

    استادہ ہے جب سامنے دیوار کہوں کیا

    استادہ ہے جب سامنے دیوار کہوں کیا حاصل بھی نہیں روزن درکار کہوں کیا لگتا تو ہے کچھ دید کو نادید کے پیچھے کھلتا نہیں منظر کوئی اس پار کہوں کیا ہوں تنگ ذرا جیب سے اے حسرت اشیا شامل تو ہے فہرست میں بازار کہوں کیا جس بات کے انکار کا حد درجہ گماں ہے وہ بات یقیں کے لئے سو بار کہوں ...

    مزید پڑھیے

    گلیوں میں بھٹکنا رہ آلام میں رہنا

    گلیوں میں بھٹکنا رہ آلام میں رہنا یاں سب کو ہے ناکامیٔ یک گام میں رہنا پہلے تو بکھر جانا گزر گاہوں کے ہم راہ پھر حسرت دیوار و در و بام میں رہنا باغات میں پھرنا خس و خاشاک پہن کر ہر سلسلۂ سبز کے انجام میں رہنا ہر سانس میں گھلنا تری دہلیز کی خوشبو ہر آنکھ کا دوری کے سیہ دام میں ...

    مزید پڑھیے

    منظر وقت کی یکسانی میں بیٹھا ہوا ہوں

    منظر وقت کی یکسانی میں بیٹھا ہوا ہوں رات دن ایک سی ویرانی میں بیٹھا ہوا ہوں کوئی سامان سفر ہے نہ مسافت در پیش مطمئن بے سر و سامانی میں بیٹھا ہوا ہوں کبھی نایافت کا ہے تو کبھی کم یافت کا غم وجہ بے وجہ پریشانی میں بیٹھا ہوا ہوں کار دشوار ہے آغاز سے منکر جب تک کار بے کار کی آسانی ...

    مزید پڑھیے

    یہیں تھا بیٹھا ہوا درمیاں کہاں گیا میں

    یہیں تھا بیٹھا ہوا درمیاں کہاں گیا میں کہ مل رہا نہیں اپنا نشاں کہاں گیا میں نہ کر رہا ہے فلاں کو فلاں خبر میری نہ پوچھتا ہے فلاں سے فلاں کہاں گیا میں نشان ملتا ہے حاضر میں کب گزشتہ کا بتا سکیں گے نہ آئندگاں کہاں گیا میں سجے ہوئے ہیں پیادہ و اسپ و فیل تمام بچھی ہوئی ہے بساط جہاں ...

    مزید پڑھیے

    پیچاک عمر اپنے سنوار آئنے کے ساتھ

    پیچاک عمر اپنے سنوار آئنے کے ساتھ باقی کے چار دن بھی گزار آئنے کے ساتھ حاسد بہت ہے پل میں ہویدا کرے خزاں اتنا نہ لگ کے بیٹھ بہار آئنے کے ساتھ پتھرا گئے ہیں لوگ تجلی سے حسن کی تھوڑا سا ڈال رخ پہ غبار آئنے کے ساتھ کرتا ہے عکس زیر و زبر نامراد وقت جب گھومتا ہے الٹے مدار آئنے کے ...

    مزید پڑھیے

    کبھی قطار سے باہر کبھی قطار کے بیچ

    کبھی قطار سے باہر کبھی قطار کے بیچ میں ہجر زاد ہوا خرچ انتظار کے بیچ بنا ہوا ہے تعلق سا استواری کا مرے طواف سے اس محور و مدار کے بیچ کہ آتا جاتا رہے عکس حیرتی اس میں بچھا دیا گیا آئینہ آر پار کے بیچ ہوا کے کھیل میں شرکت کے واسطے مجھ کو خزاں نے شاخ سے پھینکا ہے رہ گزار کے بیچ یہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3