قافلہ اترا صحرا میں اور پیش وہی منظر آئے
قافلہ اترا صحرا میں اور پیش وہی منظر آئے راکھ اڑی خیمہ گاہوں کی خون میں لتھڑے سر آئے گلیوں میں گھمسان کا رن ہے معرکہ دست بدست ہے یاں جسے بھی خود پر ناز بہت ہو آنگن سے باہر آئے اک آسیب سا لہراتا ہے بستی کی شہ راہوں پر شام ڈھلے جو گھر سے نکلے لوٹ کے پھر نہیں گھر آئے دنوں مہینوں ...