اعجاز گل کی غزل

    قافلہ اترا صحرا میں اور پیش وہی منظر آئے

    قافلہ اترا صحرا میں اور پیش وہی منظر آئے راکھ اڑی خیمہ گاہوں کی خون میں لتھڑے سر آئے گلیوں میں گھمسان کا رن ہے معرکہ دست بدست ہے یاں جسے بھی خود پر ناز بہت ہو آنگن سے باہر آئے اک آسیب سا لہراتا ہے بستی کی شہ راہوں پر شام ڈھلے جو گھر سے نکلے لوٹ کے پھر نہیں گھر آئے دنوں مہینوں ...

    مزید پڑھیے

    ہم تم جب بھی پیار کریں گے جان و دل صدقے ہوں گے

    ہم تم جب بھی پیار کریں گے جان و دل صدقے ہوں گے روحوں کی خوشبو میں ہوں گی باہوں کے گجرے ہوں گے پیشروو تم بیت چکے اب ہم لوگوں کی باری ہے زندانوں کے در تو وا ہوں ہم آگے آگے ہوں گے گمنامی کی گلیوں میں تاریخ کہاں تک پہنچے گی ایک تمہی سقراط نہیں ہو اور بہت گزرے ہوں گے حسن اگر زنجیر کیا ...

    مزید پڑھیے

    اتنا طلسم یاد کے چقماق میں رہا

    اتنا طلسم یاد کے چقماق میں رہا روشن چراغ دور کسی طاق میں رہا مخفی بھی تھا وصال کا وہ باب مختصر کچھ دل بھی محو ہجر کے اسباق میں رہا صحرا کے اشتراک پہ راضی تھے سب فریق محمل کا جو فساد تھا عشاق میں رہا مفقود ہو گیا ہے سیاق و سباق سے جو حرف عمر سیکڑوں اوراق میں رہا میں تھا کہ جس کے ...

    مزید پڑھیے

    دشوار ہے اب راستا آسان سے آگے

    دشوار ہے اب راستا آسان سے آگے رکھ عمر کہن پچھلا قدم دھیان سے آگے اٹکا ہوا سورج ہے اسی ایک سبق پر بڑھتا نہیں دن رات کی گردان سے آگے قسمت کی خرابی ہے کہ جاتا ہوں غلط سمت پڑتا ہے بیابان بیابان سے آگے پہنچا تو نہیں میں در وصلت پہ مگر ہاں سنتا ہوں کہیں ہے شب ہجران سے آگے نہ تخت نہ ...

    مزید پڑھیے

    رہ رہے ہیں مکیں شبوں کے

    رہ رہے ہیں مکیں شبوں کے کیا ہوئے ڈھیر سورجوں کے آنکھ میں خواب منجمد ہیں رنگ برساؤ حوصلوں کے خون سے طے کئے گئے ہیں راستے زرد موسموں کے مقتلوں سے اٹھائے میں نے پھول سے جسم دوستوں کے اے زمیں تیری عظمتوں میں بہہ گئے شہر واہموں کے

    مزید پڑھیے

    ڈھونڈھتا ہوں روز و شب کون سے جہاں میں ہے

    ڈھونڈھتا ہوں روز و شب کون سے جہاں میں ہے اک مکاں کہ روشن سا بستیٔ گماں میں ہے سست رو مسافر کی قسمتوں پہ کیا رونا تیز چلنے والا بھی دشت بے اماں میں ہے خوش بہت نہ ہو سن کر ساحلوں کا آوازہ اک فصیل پانی کی اور درمیاں میں ہے لوٹنے نہیں دیتا یہ طلسم رستوں کا جانتا ہوں میں ورنہ سکھ بہت ...

    مزید پڑھیے

    محمل ہے مطلوب نہ لیلیٰ مانگتا ہے

    محمل ہے مطلوب نہ لیلیٰ مانگتا ہے چاک گریباں قیس تو صحرا مانگتا ہے ہجر سر ویرانۂ جاں بھی مہر بلب وصل گلی کوچوں میں چرچا مانگتا ہے اس آئینہ خانے کا ہر رقص کناں اپنے سامنے اپنا تماشا مانگتا ہے ناامیدی لاکھ قفس ایجاد کرے طائر دل پرواز تمنا مانگتا ہے عمر بتاتا ہے امروز میں اور ...

    مزید پڑھیے

    تھم گئی وقت کی رفتار ترے کوچے میں

    تھم گئی وقت کی رفتار ترے کوچے میں ایسے ثابت ہوا سیار ترے کوچے میں منظر بام سر دید نہیں کھلتا ہے کچھ ہے نا دیدہ کا اسرار ترے کوچے میں ہر طلب گار کو ہے حاصل گفتار سکوت نہ ہے انکار نہ اقرار ترے کوچے میں آئینہ شام کا روشن رخ مہتاب سے کر عکس چمکے تو ہو دیدار ترے کوچے میں وصلت کار ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3