اعجاز گل کے تمام مواد

28 غزل (Ghazal)

    پیشتر جنبش لب بات سے پہلے کیا تھا

    پیشتر جنبش لب بات سے پہلے کیا تھا ذہن میں صفر کی اوقات سے پہلے کیا تھا وصلت و ہجرت عشاق میں کیا تھا اول نفی تھی بعد تو اثبات سے پہلے کیا تھا کوئی گردش تھی کہ ساکت تھے زمین و خورشید گنبد وقت میں دن رات سے پہلے کیا تھا میں اگر پہلا تماشا تھا تماشا گہہ میں مشغلہ اس کا مری ذات سے ...

    مزید پڑھیے

    نہیں شوق خریداری میں دوڑے جا رہا ہے

    نہیں شوق خریداری میں دوڑے جا رہا ہے یہ گاہک سیر بازاری میں دوڑے جا رہا ہے میسر کچھ نہیں ہے کھیل میں لا حاصلی کے یونہی بیکار بیکاری میں دوڑے جا رہا ہے اٹھائے پھر رہا ہے کوتوال عمر چابک بدن مجبور لاچاری میں دوڑے جا رہا ہے کھڑی ہے منفعت حیران باہر دائرے سے زیاں اپنی زیاں کاری میں ...

    مزید پڑھیے

    خاشاک سے خزاں میں رہا نام باغ کا

    خاشاک سے خزاں میں رہا نام باغ کا ورنہ تو ہر درخت پہ قبضہ ہے زاغ کا حیرت ہے سب تلاش پہ اس کی رہے مصر پایا گیا سراغ نہ جس بے سراغ کا ہے ارتکاز ذات میں وقفہ ذرا سی دیر ٹوٹا نہیں ہے رابطہ لو سے چراغ کا کب کس پہ مہربان ہو اور کب الٹ پڑے کس کو یہاں پتا ہے کسی کے دماغ کا ہوتا ہے پھر وہ ...

    مزید پڑھیے

    کسے خیال تھا ایسی بھی ساعتیں ہوں گی

    کسے خیال تھا ایسی بھی ساعتیں ہوں گی کہ میرے نام سے بھی تجھ کو وحشتیں ہوں گی سزائے مرگ کی صورت وصال گزرا تھا بچھڑ گئے ہیں تو کیا کیا قیامتیں ہوں گی جدائیوں میں زمانے نے کیا سلوک کیا کبھی دوبارہ ملے تو حکایتیں ہوں گی خوشا کہ اپنی وفا فاصلوں کی نذر ہوئی ہمارے بعد زمیں پر رفاقتیں ...

    مزید پڑھیے

    استادہ ہے جب سامنے دیوار کہوں کیا

    استادہ ہے جب سامنے دیوار کہوں کیا حاصل بھی نہیں روزن درکار کہوں کیا لگتا تو ہے کچھ دید کو نادید کے پیچھے کھلتا نہیں منظر کوئی اس پار کہوں کیا ہوں تنگ ذرا جیب سے اے حسرت اشیا شامل تو ہے فہرست میں بازار کہوں کیا جس بات کے انکار کا حد درجہ گماں ہے وہ بات یقیں کے لئے سو بار کہوں ...

    مزید پڑھیے

تمام

3 نظم (Nazm)

    نشان زندگی

    کس نے کھینچی ہیں لکیریں مرے دروازے پر کون ہے جو کہ دبے پاؤں چلا آیا ہے میرے بے رنگ ہیولے کا تعاقب کرتا میں تو محتاط تھا ایسا کہیں آتے جاتے اپنے سائے کو بھی پاتال میں چھوڑ آتا تھا اپنا سامان اٹھاتا تو شب نصف پہر دست ہشیار مٹاتا مرے قدموں کا سراغ جسم ہر سانس کی آواز مقفل رکھتا خاک ...

    مزید پڑھیے

    دشمنوں کے درمیان صلح

    برگ آوارہ صدا آئے ہیں کوئی آوازۂ پا لائے ہیں تیرے پیغام رساں ہیں شاید اور پیمان وفا لائے ہیں گفتگو نرم ہے لہجہ دھیما اب کے انداز جدا لائے ہیں اک ندامت بھی ہے پچھتاوا بھی خفت جرم و جفا لائے ہیں آنکھ میں اشک پشیمانی کے ہونٹ پر حرف دعا لائے ہیں سارے سامان رفوگری کے جیب و دامن میں ...

    مزید پڑھیے

    ذخیرہ گھر مقفل ہیں

    گزرتے وقت کے ویراں جزیروں کی سزا پیشانیوں پر ثبت ہے آزردگی کے کیل جسموں میں گڑے ہیں بد نصیبی گردنوں کا طوق ہے اور محنتوں کے ہات خالی ہیں ہوا کے ساتھ گندم کی مہک شہروں میں اڑتی ہے ذخیرہ گھر مقفل ہیں مشقت کا بدل کڑوے کسیلے موسموں کا ذائقہ ہے ہم پرانی جھولیاں پھیلائے خواہش کے ...

    مزید پڑھیے