صورت سحر جاؤں اور در بدر جاؤں

صورت سحر جاؤں اور در بدر جاؤں
اب تو فیصلہ ٹھہرا رات سے گزر جاؤں


واہموں کے زنداں کا ذہن ذہن قیدی ہے
بول فکر تابندہ میں کدھر کدھر جاؤں


میری نارسائی سے قافلہ نہ رک جائے
میں کہ پا شکستہ ہوں راستے میں مر جاؤں


عشق کی صداقت پر جبکہ میرا ایماں ہے
کیسے خودکشی کر لوں کیوں بکھر بکھر جاؤں