نظر

نظر نظر کا فریب ہر سو
اٹھے تو صحرا پہ پھیل جائے
جھکے تو اک گہری جھیل
بادل صفت یہ برکھا کی ایک رم جھم
جو پیار ہو تو یہ چاندنی ہے
نظر نظر کا فریب
لیکن نظر حقیقت
نظر جھپکنے میں تخت بلقیس سامنے ہو
نظر کے جادو سے جسم پتھر
نظر کے پر تاب نور سے کوہ طور سینا بھی ریزہ ریزہ
نظر نظر کا فریب
لیکن نظر حقیقت
مرے ہی تار نظر سے
دھرتی پہ سرمئی چھت تنی ہوئی ہے