احتشام حسن کی غزل

    عقب میں درمیاں اور سامنے والی نشستوں پر

    عقب میں درمیاں اور سامنے والی نشستوں پر جہاں دیکھا وہاں تھے آپ ہی ساری نشستوں پر وہ جب اسٹیج پر آیا تو پیچھے بیٹھنے والے چلے آئے قطاریں توڑ کر اگلی نشستوں پر خبر ہی نہ ملی ان کو تماشا ختم ہونے کی تماشائی جھگڑتے رہ گئے خالی نشستوں پر گلے میں دل اچھل کر آ گیا سب اہل محفل کا جب اس ...

    مزید پڑھیے

    مرحبا دیدۂ مے نوش میں آنے والے

    مرحبا دیدۂ مے نوش میں آنے والے اب ترے رند نہیں ہوش میں آ نے والے دیکھ ساقی رہے خالی نہ ترا کوئی سبو جام ہیں دست بلانوش میں آنے والے قتل اے زیست تری سیج پہ دھوکے سے ہوئے مر گئے سب تری آغوش میں آنے والے جا بجا دیکھ کے ہنستے ہوئے چہروں کے مزار رو پڑے کوچۂ خاموش میں آنے ...

    مزید پڑھیے

    یوں سمایا ہے کہ اب سر سے نکلنے کا نہیں

    یوں سمایا ہے کہ اب سر سے نکلنے کا نہیں میں جو چاہوں بھی تو اک ڈر سے نکلنے کا نہیں میں نے جو خوف پرویا تھا رگوں میں اپنی ایسا بیٹھا ہے کہ اندر سے نکلنے کا نہیں بعد کوشش کے نتیجہ یہ نکالا میں نے زندگی میں ترے چکر سے نکلنے کا نہیں کھینچ لاتے ہیں حقیقت میں حوادث ورنہ آدمی خواب کے ...

    مزید پڑھیے

    سیدھے سادھے لوگ تھے پہلے گھر بھی سادہ ہوتا تھا

    سیدھے سادھے لوگ تھے پہلے گھر بھی سادہ ہوتا تھا کمرے کم ہوتے تھے اور دالان کشادہ ہوتا تھا دیکھ کے وہ گھر گاؤں والے سوگ منایا کرتے تھے صحن میں جو دیوار اٹھا کر آدھا آدھا ہوتا تھا مستقبل اور حال کے آزاروں کے ساتھ نمٹنے کو چوپالوں میں ماضی کی یادوں کا اعادہ ہوتا تھا دکھ چاہے جس کا ...

    مزید پڑھیے

    بیٹھ کر ایک ڈال پر فی الحال

    بیٹھ کر ایک ڈال پر فی الحال اے پرندے نکال پر فی الحال بات دیکھیں کہاں پہنچتی ہے زور ہے حال چال پر فی الحال دکھ سمجھنا پڑے گا بچے کا پہلا آنسو ہے گال پر فی الحال فکر نان جویں کا غلبہ ہے اپنے ہر اک خیال پر فی الحال ڈھل گیا ہے عروج کا موسم ہے بلندی زوال پر فی الحال اس کی انمول ...

    مزید پڑھیے

    پربت ترے پہلو میں اگر کھائی نہیں ہے

    پربت ترے پہلو میں اگر کھائی نہیں ہے کاہے کی بلندی جہاں گہرائی نہیں ہے اب کوئی وہاں اس لیے ہوتا نہیں رسوا کوچے میں ترے کوئی تماشائی نہیں ہے حضرت جو رواداری نظر آپ میں آئی کیوں آپ کے بچوں میں نظر آئی نہیں ہے دنیا نے تو اس میں بھی کئی نقص نکالے تصویر جو میں نے ابھی بنوائی نہیں ...

    مزید پڑھیے

    مشورے پر نہ کہیں دھوپ کے چلنے لگ جائیں

    مشورے پر نہ کہیں دھوپ کے چلنے لگ جائیں آدمی موم بنیں اور پگھلنے لگ جائیں جیسے ماحول بدل دیتی ہے مسکان تری پیرہن دیکھ کے موسم نہ بدلنے لگ جائیں اس قدر بغض دلوں میں ہے کہ معلوم نہیں لوگ کب کس کے لیے زہر اگلنے لگ جائیں دیکھ کر رونق بازار میں بچوں کا صبر اب یہ خطرہ ہے کھلونے نہ ...

    مزید پڑھیے

    کہنے لگا کھلتے ہوئے دروازہ ہوا سے

    کہنے لگا کھلتے ہوئے دروازہ ہوا سے یہ پہلا تعارف ہے مرا تازہ ہوا سے پھر چوم گئیں پھول کے رخسار ہوائیں پھر پھول کے چہرے پہ لگا غازہ ہوا سے خوشبو کا سراپا ہے کہ پھولوں کی ہے ترکیب وہ آئے تو ہو جاتا ہے اندازہ ہوا سے رکھتے ہیں منڈیروں پہ دئے اپنے جلا کر ہم نے کبھی پوچھا نہیں خمیازہ ...

    مزید پڑھیے