بیٹھ کر ایک ڈال پر فی الحال

بیٹھ کر ایک ڈال پر فی الحال
اے پرندے نکال پر فی الحال


بات دیکھیں کہاں پہنچتی ہے
زور ہے حال چال پر فی الحال


دکھ سمجھنا پڑے گا بچے کا
پہلا آنسو ہے گال پر فی الحال


فکر نان جویں کا غلبہ ہے
اپنے ہر اک خیال پر فی الحال


ڈھل گیا ہے عروج کا موسم
ہے بلندی زوال پر فی الحال


اس کی انمول چاہتوں کا ادھار
ہے مرے بال بال پر فی الحال


ہم تو چھوڑ آئے تھے چمن تیرا
کون ہے دیکھ بھال پر فی الحال


اک پرندے نے دوسرے سے کہا
چل اترتے ہیں جال پر فی الحال


دھڑکنیں منہ کو آ رہی ہیں حسنؔ
دل نہیں اعتدال پر فی الحال