مرحبا دیدۂ مے نوش میں آنے والے

مرحبا دیدۂ مے نوش میں آنے والے
اب ترے رند نہیں ہوش میں آ نے والے


دیکھ ساقی رہے خالی نہ ترا کوئی سبو
جام ہیں دست بلانوش میں آنے والے


قتل اے زیست تری سیج پہ دھوکے سے ہوئے
مر گئے سب تری آغوش میں آنے والے


جا بجا دیکھ کے ہنستے ہوئے چہروں کے مزار
رو پڑے کوچۂ خاموش میں آنے والے


سالہا سال جنہیں دشت سے مانوس کیا
اب یہ پاؤں نہیں پاپوش میں آنے والے


اتنا ادراک تو ہے ہم کو کہ آسانی سے
ہم نہیں دست ستم کوش میں آنے والے


سب طرف دار ترے نکلے اداکار حسنؔ
مصلحت کوش تھے سب جوش میں آنے والے