مشورے پر نہ کہیں دھوپ کے چلنے لگ جائیں

مشورے پر نہ کہیں دھوپ کے چلنے لگ جائیں
آدمی موم بنیں اور پگھلنے لگ جائیں


جیسے ماحول بدل دیتی ہے مسکان تری
پیرہن دیکھ کے موسم نہ بدلنے لگ جائیں


اس قدر بغض دلوں میں ہے کہ معلوم نہیں
لوگ کب کس کے لیے زہر اگلنے لگ جائیں


دیکھ کر رونق بازار میں بچوں کا صبر
اب یہ خطرہ ہے کھلونے نہ مچلنے لگ جائیں


ہم بھی گلشن سے نکل جائیں گے خاموشی سے
نئے پودے تو ذرا پھولنے پھلنے لگ جائیں


موت ہے بھوک ہے کرتب ہے کہ کیا ہے جب لوگ
دو ستونوں سے بندھی تار پہ چلنے لگ جائیں


تم بتانا کہ حسنؔ خواب نہیں سچ ہے یہ
ہم تمہیں دیکھ کے جب آنکھ مسلنے لگ جائیں