کہنے لگا کھلتے ہوئے دروازہ ہوا سے

کہنے لگا کھلتے ہوئے دروازہ ہوا سے
یہ پہلا تعارف ہے مرا تازہ ہوا سے


پھر چوم گئیں پھول کے رخسار ہوائیں
پھر پھول کے چہرے پہ لگا غازہ ہوا سے


خوشبو کا سراپا ہے کہ پھولوں کی ہے ترکیب
وہ آئے تو ہو جاتا ہے اندازہ ہوا سے


رکھتے ہیں منڈیروں پہ دئے اپنے جلا کر
ہم نے کبھی پوچھا نہیں خمیازہ ہوا سے


کل رات دریچوں میں کوئی اور نہیں تھا
بکھرا تھا خیالات کا شیرازہ ہوا سے


کہنا ہے اسے جو بھی حسنؔ فون پہ کہہ دو
اب تیز ہے رفتار میں آوازہ ہوا سے