Dr. Anand Kishore

ڈاکٹر آنند کشور

ڈاکٹر آنند کشور کی غزل

    الفت کے جب سے عام کئی راز ہو گئے

    الفت کے جب سے عام کئی راز ہو گئے بدلے ہوئے جہان کے انداز ہو گئے حالانکہ روز آتے تھے مرضی سے اپنی وہ اک دن بلایا ہم نے تو ناراض ہو گئے پل پل بدلتے رنگ ہیں انسان کس کس طرح سمجھا تھا جن کو دوست دغاباز ہو گئے جن کا کوئی اتا نہ پتا تھا کسی کو بھی چڑیا ہوئی جواں تو کئی باز ہو گئے وہ ...

    مزید پڑھیے

    صرف ان کے دل میں بسنے کے لئے

    صرف ان کے دل میں بسنے کے لئے بک گئے ہم ایک سپنے کے لئے قطرے قطرے پر لکھی ہے داستاں آئے گا کیا کوئی پڑھنے کے لئے ایسی عادت غم کی ہم کو ہو گئی چاہیے غم کوئی ہنسنے کے لئے پہلے نوچا ہے پروں کو اور پھر کر دیا آزاد اڑنے کے لئے سوچتے ہیں آستیں کو دیکھ کر کیا انہیں پالا تھا ڈسنے کے ...

    مزید پڑھیے

    آج بھی قید ان آنکھوں میں کہانی ہے وہی

    آج بھی قید ان آنکھوں میں کہانی ہے وہی مدتوں بعد بھی الفت کی روانی ہے وہی دھوپ کا جسم سر عام جلا کرتا ہے پھر بھی اس دھوپ کی پہلے سی جوانی ہے وہی وصل کی چاہ میں دوڑی ہے ندی ساگر تک آرزو اس کی زمانے سے پرانی ہے وہی جنم لیتی ہیں کہانی سے کہانی لاکھوں پھر بھی دیکھی ہے کہانی کی کہانی ...

    مزید پڑھیے

    جب کسی صحرا سے ہو کر ایک دریا جائے گا

    جب کسی صحرا سے ہو کر ایک دریا جائے گا تشنگی کا خوف یارو دل سے مٹتا جائے گا دن میسر ہم کو ہوگا کیا کبھی ایسا بھی اک ہر کسی انساں کے منہ میں جب نوالا جائے گا کیا عداوت روپ بھی لے گی بغاوت کا کبھی کیا کوئی پتھر یقیناً پھر اچھالا جائے گا حادثہ سچ مچ ہوا تھا سامنے میرے مگر کیا حقیقت ...

    مزید پڑھیے

    یہ نہ سوچا تھا کبھی پیار میں ایسا ہوگا

    یہ نہ سوچا تھا کبھی پیار میں ایسا ہوگا درمیاں بھیڑ کے بھی کوئی اکیلا ہوگا وہ زمانے میں کوئی شخص نرالا ہوگا جس نے مجبور کے کردار کو پرکھا ہوگا عشق وہ خشک زمیں ہے کہ جہاں میلوں تک دھوپ کا دشت کہیں ریت کا دریا ہوگا ایک میدان تصور میں مرے ہے کہ جہاں کوئی دیوار نہ دیوار کا سایہ ...

    مزید پڑھیے