آج بھی قید ان آنکھوں میں کہانی ہے وہی
آج بھی قید ان آنکھوں میں کہانی ہے وہی
مدتوں بعد بھی الفت کی روانی ہے وہی
دھوپ کا جسم سر عام جلا کرتا ہے
پھر بھی اس دھوپ کی پہلے سی جوانی ہے وہی
وصل کی چاہ میں دوڑی ہے ندی ساگر تک
آرزو اس کی زمانے سے پرانی ہے وہی
جنم لیتی ہیں کہانی سے کہانی لاکھوں
پھر بھی دیکھی ہے کہانی کی کہانی ہے وہی
جب کلی کھل کے مہکتی ہے چمن کی ہر برس
پھر تو گلشن میں بہاروں کی نشانی ہے وہی
نسل در نسل بدلتا نہ کبھی ڈی این اے
صرف عنوان بدلتے ہیں کہانی ہے وہی
ہے نہیں کوئی سروکار کسی باطل سے
جو رہا سب پہ ہے آنندؔ کا ثانی ہے وہی