الفت کے جب سے عام کئی راز ہو گئے
الفت کے جب سے عام کئی راز ہو گئے
بدلے ہوئے جہان کے انداز ہو گئے
حالانکہ روز آتے تھے مرضی سے اپنی وہ
اک دن بلایا ہم نے تو ناراض ہو گئے
پل پل بدلتے رنگ ہیں انسان کس کس طرح
سمجھا تھا جن کو دوست دغاباز ہو گئے
جن کا کوئی اتا نہ پتا تھا کسی کو بھی
چڑیا ہوئی جواں تو کئی باز ہو گئے
وہ رقص تھا کہ خوں سے زمیں لال ہو گئی
خاموش جتنے بھی تھے وہاں ساز ہو گئے
آنند کس طرح سے بدلتا ہے وقت بھی
بزدل جو کل تلک تھے وہ جاں باز ہو گئے