یہ نہ سوچا تھا کبھی پیار میں ایسا ہوگا
یہ نہ سوچا تھا کبھی پیار میں ایسا ہوگا
درمیاں بھیڑ کے بھی کوئی اکیلا ہوگا
وہ زمانے میں کوئی شخص نرالا ہوگا
جس نے مجبور کے کردار کو پرکھا ہوگا
عشق وہ خشک زمیں ہے کہ جہاں میلوں تک
دھوپ کا دشت کہیں ریت کا دریا ہوگا
ایک میدان تصور میں مرے ہے کہ جہاں
کوئی دیوار نہ دیوار کا سایہ ہوگا
کیا میرے ملک میں ایسا بھی کبھی ہے ممکن
کوئی مزدور نہ لاچار نہ بھوکا ہوگا
پرشن اٹھتا ہے یہی بعد جلانے کے انہیں
کیا چراغوں میں وہ پہلے سا اجالا ہوگا
جو بھی آتا ہے یہاں لوٹ کے جانا ہے اسے
سب کو دستور یہ دنیا کا نبھانا ہوگا
ایسے حالات کا آنندؔ تصور مت کر
جب کسی پر بھی کسی کو نہ بھروسا ہوگا