نیند میں کھلتے ہوئے خواب کی عریانی پر
نیند میں کھلتے ہوئے خواب کی عریانی پر میں نے بوسہ دیا مہتاب کی پیشانی پر اس قبیلے میں کوئی عشق سے واقف ہی نہیں لوگ ہنستے ہیں مری چاک گریبانی پر نظر آتی ہے تجھ ایسوں کو شباہت اپنی میں نے تصویر بنائی تھی کبھی پانی پر ہم فقیروں کو اسی خاک سے نسبت ہے بہت ہم نہ بیٹھیں گے ترے تخت ...