Deepak Purohit

دیپک پروہت

دیپک پروہت کی غزل

    نہ لازم توقع ہے اہل محل سے

    نہ لازم توقع ہے اہل محل سے کرو زیست شاداب علم و عمل سے حجاب و حیا سوچتے رہ گئے ہیں ملی عشق میں کامیابی پہل سے یوں ناکامیاں ہم سفر ہیں مسلسل کہ لے دے کے امید ہے اب اجل سے حیات و فنا کا یہ کیا سلسلہ ہے نہیں راز افشاں ہوا یہ ازل سے یتیمی و لا وارثی بیوگی کے بجز کچھ نہ حاصل ہے جنگ و ...

    مزید پڑھیے

    تو کیا رابطہ پھر خدا کا بشر سے

    تو کیا رابطہ پھر خدا کا بشر سے تعلق نہیں جب دعا کا اثر سے جو پوچھا ہوا سے کیوں مہکی ہوئی ہو کہا اس نے آئی ہوں ہو کر ادھر سے رہ عشق دشوار ہے کس قدر یہ کبھی پوچھ دیکھو تو مجھ در بدر سے یوں محو سفر ہوں تری جستجو میں نظر میری آگے ہے شمس و قمر سے رہا بے خبر اہل‌ غربت کے غم سے سو خود گر ...

    مزید پڑھیے

    میں مدت سے تری آمد کا یوں عالم سجائے ہوں

    میں مدت سے تری آمد کا یوں عالم سجائے ہوں عجب ہے بے خودی دہلیز پہ نظریں جمائے ہوں ہوئی تاریکیاں رخصت منور زیست ہے میری تمہاری یاد کے جگنو میں پلکوں پر سجائے ہوں پھرایا در بدر بے کل جہاں میں خواب و خواہش نے مسلسل ہے سکوں ارمان و حسرت کو مٹائے ہوں مہکتی کیفیت سے ہے معطر زندگی ...

    مزید پڑھیے

    اف یہ دل حادثوں سے ابھرتا نہیں

    اف یہ دل حادثوں سے ابھرتا نہیں کیوں یہ کمبخت مقدر سنورتا نہیں ایک ہم ہیں کہ ہم پر گھڑوں پڑ گیا ایک وہ ہیں کہ ان پر ٹھہرتا نہیں واں تو فطرت میں شامل ہے اور ہم پہ یاں غیریت کا گماں تک گزرتا نہیں تھا مقدس وہ مانند جنت کبھی کوئے جاناں سے اب میں گزرتا نہیں کس کشاکش میں ہیں زندگی و ...

    مزید پڑھیے