نہ لازم توقع ہے اہل محل سے
نہ لازم توقع ہے اہل محل سے
کرو زیست شاداب علم و عمل سے
حجاب و حیا سوچتے رہ گئے ہیں
ملی عشق میں کامیابی پہل سے
یوں ناکامیاں ہم سفر ہیں مسلسل
کہ لے دے کے امید ہے اب اجل سے
حیات و فنا کا یہ کیا سلسلہ ہے
نہیں راز افشاں ہوا یہ ازل سے
یتیمی و لا وارثی بیوگی کے
بجز کچھ نہ حاصل ہے جنگ و جدل سے