تو کیا رابطہ پھر خدا کا بشر سے

تو کیا رابطہ پھر خدا کا بشر سے
تعلق نہیں جب دعا کا اثر سے


جو پوچھا ہوا سے کیوں مہکی ہوئی ہو
کہا اس نے آئی ہوں ہو کر ادھر سے


رہ عشق دشوار ہے کس قدر یہ
کبھی پوچھ دیکھو تو مجھ در بدر سے


یوں محو سفر ہوں تری جستجو میں
نظر میری آگے ہے شمس و قمر سے


رہا بے خبر اہل‌ غربت کے غم سے
سو خود گر رہا ہوں میں اپنی نظر سے


کہ ماں خواب میں ماتھا سہلا رہی تھی
ڈروں کیا میں اب بد دعا بد نظر سے