میں مدت سے تری آمد کا یوں عالم سجائے ہوں
میں مدت سے تری آمد کا یوں عالم سجائے ہوں
عجب ہے بے خودی دہلیز پہ نظریں جمائے ہوں
ہوئی تاریکیاں رخصت منور زیست ہے میری
تمہاری یاد کے جگنو میں پلکوں پر سجائے ہوں
پھرایا در بدر بے کل جہاں میں خواب و خواہش نے
مسلسل ہے سکوں ارمان و حسرت کو مٹائے ہوں
مہکتی کیفیت سے ہے معطر زندگی میری
تمہاری روح کی خوشبو میں سانسوں میں بسائے ہوں
گھنے خود غرضی و مطلب پرستی کے اندھیروں میں
وسیع امداد اور خدمات کی شمعیں جلائے ہوں