نہ لازم توقع ہے اہل محل سے
نہ لازم توقع ہے اہل محل سے کرو زیست شاداب علم و عمل سے حجاب و حیا سوچتے رہ گئے ہیں ملی عشق میں کامیابی پہل سے یوں ناکامیاں ہم سفر ہیں مسلسل کہ لے دے کے امید ہے اب اجل سے حیات و فنا کا یہ کیا سلسلہ ہے نہیں راز افشاں ہوا یہ ازل سے یتیمی و لا وارثی بیوگی کے بجز کچھ نہ حاصل ہے جنگ و ...