بے خودی میں ہے نہ وہ پی کر سنبھل جانے میں ہے
بے خودی میں ہے نہ وہ پی کر سنبھل جانے میں ہے لطف پائے یار پر جو لغزشیں کھانے میں ہے تیرے وعدے تیری یادیں تیرے نغمے تیرے خواب حسن سے بھرپور دولت میرے کاشانے میں ہے ساغر و مینا میں لہراتی ہے ہر موج شراب اک جوانی کا تلاطم آج میخانے میں ہے بزم دنیا میں ہیں حسن و عشق یوں جلوہ ...