حسن کے جلوے لٹائے تری رعنائی نے

حسن کے جلوے لٹائے تری رعنائی نے
راز سب کھول دیے ایک ہی انگڑائی نے


رنگ بھر کر تری تصویر میں جذب غم کا
اپنی تصویر بنا دی ترے سودائی نے


وصل محبوب کی تدبیر سجھائی مجھ کو
حق پرستی نے عقیدت نے جبیں سائی نے


ہم نے سوچا تھا کہ بجھ جائیں گے غم کے شعلے
آ کے کچھ اور ہوا دی انہیں پروائی نے


شورش دہر نے بیگانہ کیا خود سے مجھے
آگہی بخشی مجھے گوشۂ تنہائی نے


ایک معصوم سے چہرے پہ رعونت کی نمود
ہائے کیا ظلم کیا عالم برنائی نے


گردش وقت نے میخانے میں دم توڑ دیا
جانے کیا چیز پلا دی ترے صہبائی نے


رخ تماشے کا بدل ڈالا اچانک آ کر
ایک خوش چہرہ خوش انداز تماشائی نے


چرخ آپس کے تعلق کا یہ انداز بھی دیکھ
کر دیا ان کو بھی رسوا مری رسوائی نے