مچلیں گے ان کے آنے پہ جذبات سینکڑوں

مچلیں گے ان کے آنے پہ جذبات سینکڑوں
ہنس بولنے کی ہوں گی حکایات سینکڑوں


میت اٹھانے کوئی بھی آیا نہ بعد مرگ
سنتے تھے زندگی میں مری بات سینکڑوں


تم تھے تو زندگی کا نہ کوئی سوال تھا
اب جنم لے رہے ہیں سوالات سینکڑوں


کیوں اس نگاہ مست کی سب مانگتے ہیں خیر
آباد اور بھی ہیں خرابات سینکڑوں


چمکے جو تیرے نور سے دن رات تھے وہی
آنے کو یوں تو آئے ہیں دن رات سینکڑوں


پردہ نواز حسن کے قربان جائیے
اک اک حجاب میں ہیں حجابات سینکڑوں


وہ بات کوئی بھی نہ کہے گا جو ہم کہیں
تم جو کہو کہیں گے وہی بات سینکڑوں


کرتے ہیں عرض وصل پہ ہاں ہوں اجی نہیں
یعنی سوال اک ہے جوابات سینکڑوں


بنتے ہیں زندگی کے فسانے انہیں سے چرخؔ
وہ ہیں تو زندگی کی روایات سینکڑوں