نہ اب وہ عشق نہ وہ عشق کی ادائیں رہیں

نہ اب وہ عشق نہ وہ عشق کی ادائیں رہیں
نہ اب وہ حسن نہ وہ حسن کی ہوائیں رہیں


نہ عشق عشق رہا اب نہ حسن حسن رہا
نہ وہ وفائیں رہیں اب نہ وہ جفائیں رہیں


وہ حسن و عشق کے راز و نیاز ہی نہ رہے
نہ وہ خطائیں رہیں اب نہ وہ سزائیں رہیں


مزاج حسن و محبت میں سادگی نہ فریب
نہ وہ یقین رہا اب نہ وہ دغائیں رہیں


غرور حسن کی بے التفاتیوں کی طرح
نگاہ شوق رہی اب نہ التجائیں رہیں


نہ وہ عیادت و تسکیں نہ وہ دل رنجور
نہ اب وہ درد محبت نہ وہ دوائیں رہیں


نہ زندگی سے وہ نفرت نہ موت کی حسرت
وہ بد دعائیں رہیں اب نہ وہ دعائیں رہیں


رباب عشق نہ مضراب حسن کچھ بھی نہیں
وہ نغمہ ہائے تمنا نہ وہ صدائیں رہیں


نہ مے کدہ نہ وہ مے خوار اور نہ وہ ساقی
نہ وہ چمن نہ بہاریں نہ وہ گھٹائیں رہیں


بدل گئے سحر و شام زندگی بسملؔ
وہ زندگی کے مناظر نہ وہ فضائیں رہیں