نہیں معلوم پائیں گے سکوں اہل جہاں کب تک

نہیں معلوم پائیں گے سکوں اہل جہاں کب تک
خدا جانے رہے گا اس زمیں پر آسماں کب تک


یہ افسانہ ابھی تو زیر عنوان کرم بھی ہے
سنائے جاؤں میں ان کے ستم کی داستاں کب تک


قفس میں تو مجھے جب تک بھی رہنا ہو مگر یا رب
تصور میں مرے جلتا رہے گا آشیاں کب تک


ضمیر آلودۂ باطل زباں آزردۂ ناحق
تری محفل میں رہ کر ہم ملائیں ہاں میں ہاں کب تک


غضب ہے ٹھیس لگنا عشق کی خوددار فطرت کو
بس اے چشم کرم اب التفات رائیگاں کب تک


دل مایوس میں کچھ خار حسرت سے کھٹکتے ہیں
خدا جانے رہیں گی راکھ میں چنگاریاں کب تک


نہیں جب پاس وعدہ تو مکر بھی جاؤ گے اک دن
بدل جائے گا جب دل تو نہ بدلے گی زباں کب تک


کبھی امید کی نظروں سے دیکھ اپنی طرف بسملؔ
نگاہ یاس سے دیکھے گا سوئے آسماں کب تک