دیتا تھا جو سایا وہ شجر کاٹ رہا ہے
دیتا تھا جو سایا وہ شجر کاٹ رہا ہے خود اپنے تحفظ کی وہ جڑ کاٹ رہا ہے بے سمت اڑانوں سے پشیماں پرندہ اب اپنی ہی منقار سے پر کاٹ رہا ہے محبوس ہوں غاروں میں مگر آذر تخیئل چٹانوں میں اشکال ہنر کاٹ رہا ہے اک ضرب مسلسل ہے کہ رکتی ہی نہیں ہے ہر تار نفس درد جگر کاٹ رہا ہے ہے کون کمیں گاہ ...