ایسا ہونے نہیں دیتا تھا مگر ہونے کو ہے

ایسا ہونے نہیں دیتا تھا مگر ہونے کو ہے
زندگی اب تو نہ جینے میں بسر ہونے کو ہے


پر جو کاٹے گئے جا پھیلے ہواؤں میں تمام
اپنی پرواز بہ انداز دگر ہونے کو ہے


وحشت دل تجھے لے کر میں کہاں جاؤں بتا
رہتے رہتے تو یہ ویرانہ بھی گھر ہونے کو ہے


دل سے پھر کھیل رہی ہیں وہی ضدی یادیں
ذرہ ذرہ مرا پھر زیر و زبر ہونے کو ہے


شمع کی لو کی طرح جان ڈھلی جاتی ہے آج
شاید اپنی شب غم کی بھی سحر ہونے کو ہے


سرخ رو خون جگر سے ہی ہوا کرتے ہیں لوگ
کیا ہے بلقیسؔ اگر جاں کا ضرر ہونے کو ہے