اک شہر آرزو ہے اور ہم ہیں دوستو
اک شہر آرزو ہے اور ہم ہیں دوستو پھر غم کی جستجو ہے اور ہم ہیں دوستو مجرم کھڑے ہوئے ہیں اک بارگاہ میں وہ شخص روبرو ہے اور ہم ہیں دوستو کانٹوں سے روشناس ہیں پھولوں سے بہرہ ور دنیائے رنگ و بو ہے اور ہم ہیں دوستو ہم جس میں جی رہے ہیں اس میکدے کی خیر ٹوٹے ہوئے سبو ہیں اور ہم ہیں ...